پروانہ تجھ سے کرتا ہے اے شمع پیار کیوں
یہ جان بے قرار ہے تجھ پر نثار کیوں
کرتا ہے یہ طواف تری جلوہ گاہ کا
پھونکا ہوا ہے کیا تری برق نگاہ کا؟
سیماب وار رکھتی ہے تیری ادا اسے
آدابِ عشق تونے سکھائے ہیں کیا اسے؟
آزارِ موت میں اسے آرامِ جاں ہے کیا؟
شعلے میں تیرے زندگیِ جاوداں ہے کیا؟
غم خانہٗ جہاں میں جو تیری ضیا نہ ہو
اس تفتہ دل کا نخلِ تمنا ہرا نہ ہو
گرنا ترے حضور میں اس کی نماز ہے
ننھے سے دل میں لذتِ سوزوگداز ہے
کچھ اس میں جوشِ عاشقی حسنِ قدیم ہے
چھوٹا سا طور تُو، یہ ذرا سا کلیم ہے
پروانہ، اور ذوقِ تماشائے روشنی
کیڑا ذرا سا، اور تمنائے روشنی
Add comment